میانوالی کے علاقے وادی نمل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کلری میں رات کے وقت ٹرک اور دیگر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ چکی تھیں۔ ایمبولینس جیسے ہی کلری کی حدود میں داخل ہوئی تو پورے علاقے سے آہ و بکا کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔
ایمبولینس میں میانوالی کے معروف شاعر 35 سالہ عرفان فانی کی ڈیڈی باڈی پڑی ہوئی تھی جو کراچی میں علالت کے بعد انتقال کر گئے تھے۔
ایمبولینس میں عرفان فانی کے ہمراہ ان کے دوست نشاط اقبال موجود تھے۔
جیسے ہی ہم گھر کے قریب پہنچے تو عرفان کی پانچ بیٹیاں اس کی لاش سے لپٹ کر اپنے کر رو رہی تھیں۔ یہ منظر کسی سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ یہ بتانے والی کیفیت نہیں تھی بلکہ صرف محسوس کی جا سکتی ہے۔
عرفان فانی محض ایک نام نہیں بلکہ اپنے علاقے کی ثقافتی اور ادبی روایت کا ایک چمکاتا ستارہ تھا وہ جہاں ایک طرف محنت کش ٹرک ڈرائیور کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، تو وہیں شاعری کے آسمان پر تھی
اُن کی وفات پر پورا علاقہ سوگوار تھا مقامی افراد نے مل کر ان کے خاندان کی کفالت کے لیے ایک ٹرک خریدا لیا تاکہ ان کی پانچ بیٹیوں، بیوہ اور دو بہنوں کو عرفان کی کمی محسوس نہ ہو۔
عرفان فانی میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کر کے روزگار نے انہیں ٹرک ڈرائیور بنا دیا تاہم وہ زمانۂ طالب علمی سے ہی شاعری کرتے تھے۔ عرفان فانی کی شخصیت میں محنت کی عظمت اور فن کی نزاکت کا انوکھا امتزاج ہے
وہ دن بھر کی تھکا دینے والی مشقت کے بعد بھی شاعری کی محفل کبھی نہں چھوڑتے۔ پانچ بیٹیوں کے باپ ہونے کا فخر ان کے چہرے پر ہمیشہ نمایاں رہتا تھا۔ وہ اپنی پانچوں بیٹیوں کو جمع کر کے تصویریں بناتے اور پھر فیس بک پر اَپ لوڈ کر دیتے تھے۔
عرفان فانی نے اپنی زندگی میں سرائیکی شاعری پر مبنی کتاب ’جھڑی‘ شائع ہوہی ہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی دوسری کتاب شائع ہوگی جس کے اخراجات مقامی لوگ برداشت کریں گے جو منافع ان کی بیوہ کو دیا جائے گا۔
واپس آئیں
کوئی غلط کمنٹ سے گریز کریں