جعفر ایکسپریس کے 80 مسافر مچھ ریلوے سٹیشن پہنچ گئےjhang.site ,,وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری ,,

0

 


**جعفر ایکسپریس پر شدت پسندوں کا حملہ: 80 مسافروں کی رہائی، سکیورٹی آپریشن جاری**  


بلوچستان میں منگل کی دوپہر کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد سکیورٹی فورسز کا کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ حملے کے نتیجے میں 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، جن میں سے 80 مسافروں کو رہا کر دیا گیا ہے۔  


### **واقعے کی تفصیلات**  

- **وقت اور مقام**: منگل کی دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب، بلوچستان کے درۂ بولان کے علاقے میں واقع ایک سرنگ کے قریب ٹرین کو روک کر مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا۔  

- **شدت پسند تنظیم**: بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔  

- **یرغمال**: ٹرین میں 400 سے زائد مسافر سوار تھے، جن میں خواتین، بچے اور سرکاری اہلکار بھی شامل تھے۔  


### **80 مسافروں کی رہائی**  

- **رہائی پانے والے مسافر**: 80 مسافروں کو شدت پسندوں نے چھوڑ دیا ہے، جن میں 43 مرد، 26 خواتین اور 11 بچے شامل ہیں۔  

- **ریلیف ٹرین**: رہا ہونے والے مسافروں کو ریلیف ٹرین کے ذریعے پنیر ریلوے سٹیشن سے مچھ ریلوے سٹیشن منتقل کیا گیا، جہاں انہیں ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی۔  

- **کوئٹہ روانگی**: رہائی پانے والے مسافر کوئٹہ کے لیے روانہ ہو چکے ہیں اور چند گھنٹوں میں وہاں پہنچنے کی توقع ہے۔  


### **سکیورٹی آپریشن**  

- **عسکری کارروائی**: سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ہے۔ 13 شدت پسند ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔  

- **شدید فائرنگ**: شدت پسند چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے ہیں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔  

- **یرغمالوں کی صورتحال**: باقی یرغمالوں کو شدت پسند پہاڑی علاقے میں لے گئے ہیں، جہاں خواتین اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔  


### **سیاسی ردعمل**  

- **بلاول بھٹو زرداری**: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا ایک بزدلانہ عمل ہے۔ انہوں نے بلوچستان حکومت سے ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔  

- **وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی**: انہوں نے بھی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ معصوم مسافروں پر فائرنگ کرنے والے درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔  


### **یرغمالوں کے اہلخانہ کی پریشانی**  

- **کوئٹہ ریلوے سٹیشن**: یرغمالوں کے اہلخانہ کی بڑی تعداد کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر موجود ہے۔  

- **خاندانوں کی اپیل**: عبدالرؤف، جن کے والد عمر فاروق یرغمال ہیں، نے حکومت سے اپیل کی کہ آپریشن جلد ختم کیا جائے تاکہ ان کے پیاروں کا پتہ چل سکے۔  


### **طبی صورتحال**  

- **زخمیوں کی منتقلی**: زخمی مسافروں کو قریبی ہسپتال میں منتقل کیا گیا ہے۔  

- **ڈرائیور زخمی**: ٹرین کا ڈرائیور حملے میں زخمی ہوا ہے، جبکہ دیگر زخمیوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح اطلاع نہیں ہے۔  


### **آگے کی صورتحال**  

سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے اور امید ہے کہ باقی یرغمالوں کو جلد رہا کرایا جا سکے گا۔ حکومت اور سکیورٹی ادارے صورتحال پر قابو پانے کے لیے کوشاں ہیں۔  


**شیئر کریں**: جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد 80 مسافروں کی رہائی، سکیورٹی آپریشن جاری۔  


(یہ خبر بی بی سی اردو، جیو نیوز اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہے۔)

********************

بلوچستان کے ضلع سبّی میں نامعلوم مسلح افراد نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملہ کیا ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق، یہ ٹرین نو بوگیوں پر مشتمل تھی اور اس میں 400 سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان کے مطابق، ٹرین پر شدید فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔ کوئٹہ سے درہ بولان کی جانب ہیلی کاپٹرز کی پروازیں جاری ہیں اور ممکنہ طور پر دشوار گزار علاقے کا جائزہ لیا جائے گا۔ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ریلوے ترجمان کے مطابق، جس مقام پر ٹرین کو روکا گیا ہے وہ مرکزی سڑک سے 24 کلومیٹر دور ایک سرنگ کے پاس واقع ہے جہاں موبائل اور ٹیلی فون سروس کام نہیں کر رہی۔


یہ واقعہ بلوچستان میں سلامتی کی صورتحال کے حوالے سے ایک اور تشویشناک پیشرفت ہے۔ حکام نے مزید تفصیلات کا انتظار کیا جا رہا ہے اور ممکنہ طور پر مزید کارروائی کی جائے گی۔

*******************


وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے جیو نیوز کے پروگرام "آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ" میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے بعد کی صورتحال پر تفصیلی بات چیت کی۔ انھوں نے بتایا کہ حملے کے بعد شدت پسندوں نے کئی مسافروں کو ٹرین سے اغوا کر کے پہاڑی علاقے میں لے گئے ہیں، جہاں وہ خواتین اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔


چوہدری نے تصدیق کی کہ ٹرین میں سرکاری اہلکاروں کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد اور عام شہری بھی سوار تھے۔ انھوں نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ دوپہر کے وقت پیش آیا، جب ٹرین کو دو سٹیشنز کے درمیان ایک سرنگ کے قریب اغوا کیا گیا۔ یہ علاقہ دور دراز ہے، جس کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کو وہاں پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔


انھوں نے مزید کہا کہ جب سکیورٹی فورسز موقعے پر پہنچیں، تو کچھ افراد کو چھڑا لیا گیا اور انھیں قریبی سٹیشن پر منتقل کر کے ان کی منزل تک پہنچایا گیا۔ تاہم، انھوں نے واضح کیا کہ ابھی تک کچھ مسافر شدت پسندوں کے قبضے میں ہیں۔


چوہدری نے اس بات کی تردید کی کہ شدت پسندوں نے خواتین اور بچوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں کی موجودگی کی وجہ سے سکیورٹی فورسز انتہائی احتیاط سے کام لے رہی ہیں اور آپریشن جاری ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔


یہ واقعہ ملک کی سلامتی کے لیے ایک سنگین چیلنج کی نشاندہی کرتا ہے، جس پر فوری توجہ اور مستحکم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔


** فوجی آپریشنز کی نوعیت نازک ہوتی ہے، خاص طور پر جب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے نمٹنا ہو۔ ہماری اولین ترجیح اپنے جوانوں کی حفاظت اور آپریشن کی کامیابی ہے۔ مکمل ہونے تک تفصیلات شیئر کرنا دشمن کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا، عوامی سطح پر اظہارِ خیال میں احتیاط ضروری ہے۔  

**سوال:** کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسائل پر بات چیت کی جانی چاہیے۔ آپ کا موقف کیا ہے؟  

**جواب:** بات چیت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ دوسری طرف آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرے۔ جو گروہ تشدد کو راستہ سمجھتے ہیں یا دہشت گردی کی مذمت سے گریز کرتے ہیں، ان سے مذاکرات کا کوئی جواز نہیں۔ ہم صرف ان کے ساتھ ڈائیلاگ کو ترجیح دیں گے جو پاکستان کی سالمیت اور جمہوریت کے لیے پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔  

aamir khan jhang

 ؟  

**جواب:** دہشت گردی ایک حساس مسئلہ ہے۔ میڈیا یا سیاستدان اگر غیر ذمہ دارانہ بیانات دیں گے تو یہ دشمن کے لیے پروپیگنڈہ کا مواد بن سکتے ہیں، یا ہماری کوششوں کو کمزور کر سکتے ہیں۔ ہمیں یکجہتی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔  


**سوال:** کیا حکومت بلوچستان کے عوامی مسائل پر کام کر رہی ہے؟  

**جواب:** جی ہاں، ترقیاتی منصوبوں سے لے کر سیاسی مصالحت تک، ہر سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ ہماری کابینہ اور ادارے اسے قومی یکجہتی کا مسئلہ سمجھتے ہوئے حل تلاش کر رہے ہیں، لیکن یہ سب کچھ آپریشن کی کامیابی کے بعد ہی عوامی سطح پر واضح ہوگا۔  


**جواب:** جب آپ کے سامنے قومی سلامتی جیسے پیچیدہ مسائل ہوں تو جذباتی ردِ عمل کی بجائے سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ تحمل اور حکمت عملی ہی وہ ہتھیار ہیں جو دشمن کی منفی قوتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔  


**اختتامی نوٹ:اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جہاں وہ قومی مفاد کو فرداً فوقیت دیتے ہوئے واضح لیکن محتاط موقف اختیار کرتے ہیں۔ ان کا زور اس بات پر ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو صرف فوجی عمل تک محدود نہ سمجھا جائے، بلکہ اس کے سماجی، سیاسی اور معاشی پہلوؤں پر بھی یکساں توجہ دی جائے۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کوئی غلط کمنٹ سے گریز کریں

ایک تبصرہ شائع کریں (0)