**اسلام آباد ہائیکورٹ کا پولیس پر کڑی نظر: غیر قانونی حراست کے کیس میں آئی جی کو طلب کرنے کا تاریخی فیصلہ**

0

                                   


 مارچ 2025 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کی جانب سے شہری **علی محمد** کو مبینہ طور پر غیر قانونی حراست میں رکھنے کے معاملے میں ایک اہم پیش رفت دیکھی۔ جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں ہونے والی سماعت میں عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو **ذاتی حیثیت** میں طلب کرتے ہوئے پولیس کے کردار پر سوالات اٹھائے۔ یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کی بالادستی کا مظہر ہے، بلکہ شہری حقوق کے تحفظ کی جانب ایک واضح پیغام بھی دیتا ہے ۔  


### عدالت کی تنقید اور پولیس کی "کاغذی کارروائی"  


وکیل **شیر افضل مروت** نے عدالت میں پولیس کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے، جن میں شامل ہیں:  

1. **سی سی ٹی وی فوٹیج** کی موجودگی کے باوجود پولیس افسران کی شناخت میں تاخیر۔  

2. **ایس ایس پی کی مبینہ رشوت کی پیشکش** (5 لاکھ روپے کے بدلے کیس واپس لینے کی کال ریکارڈنگ) ۔  

3. ایس ایچ او سیکرٹریٹ اور دیگر افسران کا عہدوں پر برقرار رہنا، حالانکہ ان کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔  


عدالت نے ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ کی جانب سے **جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم** کے قیام کی اطلاع پر تشویش کا اظہار کیا، کیونکہ درخواست گزار کو شناخت کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن وہ نہیں آئے، اور کال اَپ نوٹس کا بھی کوئی جواب نہیں ملا ۔  


### پولیس کی کارکردگی پر عدالت کا سوال: "کیا یہی ہے احتساب کا نظام؟" 
 

جسٹس محسن اختر کیانی نے پولیس کے "کاغذی کارروائی" کے طریقہ کار کو **عدلیہ اور پولیس دونوں کی بدنامی** قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر واقعی تحقیقات ہو رہی ہوتی، تو ملوث افسران عہدوں پر نہ بیٹھے ہوتے۔ عدالت نے اس معاملے کو "اغواہ برائے تاوان" جیسے سنگین جرم سے جوڑتے ہوئے فوری کارروائی کا حکم دیا ۔  


عدالت نے آئی جی کو **13 مارچ تک** رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، جس میں پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی تفصیلات شامل ہونی چاہئیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق کے حالیہ بیان کے مطابق، پولیس کے اندر **اختیارات کا ناجائز استعمال** اور زمینوں کی غیر قانونی خرید و فروخت جیسے معاملات بھی عدالت کی توجہ کا مرکز ہیں ۔  


### نتیجہ: انصاف کی راہ میں رکاوٹیں یا پولیس کی "بہترین کارکردگی"؟  


اگرچہ پولیس کی جانب سے **جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم** کا قیام اور عدالت کو رپورٹس پیش کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن شیر افضل مروت کے مطابق، یہ سب **دکھاوے** ہیں۔ عدالت کے سامنے پیش ہونے والے شواہد، جیسے رشوت کی ریکارڈنگ اور سی سی ٹی وی فوٹیج، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پولیس کا نظام احتساب **ناقص** ہے۔ تاہم، عدالت کی جانب سے آئی جی کو طلب کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انصاف کا چکر آہستہ ہی سہی، لیکن چل رہا ہے ۔  



** جسٹس محسن اختر کیانی کا یہ جملہ کہ *
*"میں پولیس افسران کو نہیں چھوڑوں گا"**


، شہریوں میں امید کی کرن جگاتا ہے کہ عدالت کی نظر میں کوئی بھی طاقت فوق القانون نہیں۔ پولیس اگرچہ اپنے فرائض انجام دے رہی ہے،

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کوئی غلط کمنٹ سے گریز کریں

ایک تبصرہ شائع کریں (0)