### واقعے کی تفصیلات:
1. **نورین کی موت:**
گزشتہ روز میو ہسپتال کی چیسٹ وارڈ میں 36 سالہ مریضہ نورین کو سیفٹرائی ایوگزن انجیکشن لگایا گیا، جس کے بعد اسے شدید ری ایکشن ہوا اور وہ جاں بحق ہو گئی۔
2. **دولت خان کی موت:**
ایک اور مریض دولت خان، جو وینٹیلیٹر پر تھا، آج انتقال کر گیا۔ اس طرح انجیکشن کے ری ایکشن سے ہلاکتوں کی تعداد دو ہو گئی ہے۔
3. **15 مریض متاثر:**
اس واقعے میں کل 15 مریض متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے تین کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔ باقی مریضوں کی حالت مستحکم ہے۔
### تحقیقات کا آغاز:
ہسپتال انتظامیہ نے فوری طور پر انجیکشن کا استعمال روک دیا ہے اور معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی کی سربراہی پروفیسر ڈاکٹر اسرار الحق کریں گے، جبکہ کمیٹی میں چیف فارماسسٹ، ڈپٹی نرسنگ اور اے ایم ایس ہسپتال کے دیگر اراکین شامل ہیں۔
### محکمہ صحت کا ردعمل:
صوبائی وزیر صحت پنجاب **خواجہ سلمان رفیق** نے واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انجیکشن کا استعمال فوری طور پر روک دیا گیا ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ری ایکشن انسانی غلطی کی وجہ سے ہوا، کیونکہ انجیکشن پاؤڈر کی شکل میں تھا اور اسے محلول بنانے میں غلطی ہوئی۔
### انجیکشن کی خریداری پر سوالات:
یہ انجیکشن، جس کا برانڈ نام **ویکسا (Vexa)** ہے، سابق نگران حکومت کے دور میں **ٹاپ آف میڈیسن پروجیکٹ** کے تحت خریدا گیا تھا۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب کے دفتر نے اس انجیکشن کی بڑی مقدار میں خریداری کی تھی اور اسے تمام سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں میں سپلائی کیا گیا تھا۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس انجیکشن کو سرکاری لیب میں پاس کرنے کے بعد ہی ہسپتالوں میں سپلائی کیا گیا تھا، لیکن پھر بھی یہ مہلک ثابت ہوا۔
### محکمہ صحت کی ایڈوائزری کی خلاف ورزی:
2024 میں لیڈی ویلنگڈن ہسپتال میں اسی انجیکشن کے ری ایکشن کے بعد محکمہ صحت نے ایک ایڈوائزری جاری کی تھی، جس میں ہدایت دی گئی تھی کہ سیفٹرائی ایوگزن کو **کیلشیم پر مشتمل محلول (رنگر لیکٹیٹ)** کے ساتھ مکس کر کے استعمال نہ کیا جائے، کیونکہ اس سے مریضوں میں شدید ری ایکشن ہو سکتا ہے، جو جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ میو ہسپتال میں یہ ری ایکشن اسی ہدایت کی خلاف ورزی کے نتیجے میں ہوا ہے۔
### وزیراعلیٰ پنجاب کا ردعمل:
وزیراعلیٰ پنجاب **مریم نواز** نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری ہیلتھ اور اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر سے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
### ماضی کے واقعات:
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب سیفٹرائی ایوگزن انجیکشن کے استعمال سے مریضوں کی اموات ہوئی ہیں۔ دس ماہ قبل خانیوال میں بھی اسی انجیکشن کے استعمال سے بچوں کی اموات ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ فیصل آباد اور ساہیوال کے ہسپتالوں میں بھی اسی انجیکشن کے ری ایکشن کے واقعات سامنے آئے تھے۔
### اگلا مرحلہ:
تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اگلے 24 گھنٹوں میں پیش کی جائے گی، جس کے بعد مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ عوام کی جانب سے مطالبہ ہے کہ اس معاملے میں شفافیت برتی جائے اور ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے۔
یہ واقعہ سرکاری صحت کے نظام میں اصلاحات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے، تاکہ ایسے المناک واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔
**جاری ہے...**
کوئی غلط کمنٹ سے گریز کریں