ضلع بھکر کے ایک سینئر سرجن ڈاکٹر شہریار ولد رفیق احمد خان نیازی کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے خلاف فیس

0

 

**ڈاکٹر شہریار کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ: آزادی اظہارِ رائے اور قانونی تنازع**


ضلع بھکر کے ایک سینئر سرجن ڈاکٹر شہریار ولد رفیق احمد خان نیازی کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے خلاف فیس بک پر تنقیدی پوسٹس کرنے پر الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر آزادی اظہارِ رائے اور قانونی حدود کے درمیان کشمکش کو ایک بار پھر نمایاں کر گیا ہے۔


### واقعے کی تفصیلات

ڈاکٹر شہریار، جو ماضی میں میو ہسپتال میں خدمات انجام دے چکے ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر مریم نواز کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کیے۔ اس پر پنجاب پولیس نے پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر دیا۔ پولیس کے مطابق، ڈاکٹر شہریار کی جانب سے مریم نواز کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹس کی گئیں، جن میں نازیبا زبان استعمال کی گئی تھی۔ تاہم، پولیس کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ اگر تحقیقات کے دوران ڈاکٹر شہریار پر لگائے گئے الزامات ثابت نہ ہوئے تو مقدمہ خارج بھی کیا جا سکتا ہے۔


ڈاکٹر شہریار کی آخری سوشل میڈیا پوسٹ ان کے مریضوں کے لیے ایک پیغام تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ہر حال میں اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ یہ پیغام ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے تئیں عزم کا عکاس تھا، لیکن اب وہ ایک قانونی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔


### سوشل میڈیا پر ردعمل

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ صارفین نے اسے آزادی اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تنقید کرنا کسی بھی جمہوری معاشرے کا بنیادی حق ہے اور اس پر قانونی کارروائی کرنا اظہارِ رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف، کچھ لوگوں نے اسے قانون کے مطابق درست کارروائی قرار دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اگر کسی نے کسی شخصیت کے خلاف نفرت انگیز یا غلط معلومات پھیلائی ہیں تو اس پر قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔


### قانونی تناظر

پیکا ایکٹ 2016 کا مقصد سائبر کرائمز کو روکنا اور انفرادی یا اداروں کے خلاف غلط معلومات یا نفرت انگیز مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ تاہم، اس قانون کا اطلاق تنقید اور آزادی اظہارِ رائے کے معاملے پر متنازعہ بن چکا ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق، پیکا ایکٹ کا استعمال بعض اوقات سیاسی یا سماجی تنقید کو دبانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے، جو کہ جمہوری اقدار کے منافی ہے۔


### ڈاکٹر شہریار کا موقف

ڈاکٹر شہریار نے اب تک اپنے خلاف لگائے گئے الزامات پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔ تاہم، ان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کی خدمت کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی آخری پوسٹ میں انہوں نے اپنے مریضوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ ہر حال میں اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔


### مستقبل کے امکانات

اب یہ دیکھنا ہوگا کہ قانونی تحقیقات کس سمت میں جاتی ہیں۔ اگر ڈاکٹر شہریار پر لگائے گئے الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو انہیں پیکا ایکٹ کے تحت سخت سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم، اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں تو یہ واقعہ قانون کے غلط استعمال کی ایک اور مثال بن جائے گا۔


### اختتامیہ

یہ واقعہ ایک بار پھر سوال اٹھاتا ہے کہ کیا قانون کا اطلاق یکساں ہے یا اسے سیاسی یا سماجی دباؤ کے تحت استعمال کیا جاتا ہے؟ آزادی اظہارِ رائے اور قانونی حدود کے درمیان توازن قائم کرنا ہر جمہوری معاشرے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ڈاکٹر شہریار کا کیس اس چیلنج کو مزید گہرا کرتا ہے اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی ایک آزاد اور منصفانہ معاشرے کی طرف بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔


اس واقعے کے بعد یہ امید کی جا رہی ہے کہ قانونی ادارے اس معاملے کو غیر جانبدارانہ طور پر حل کریں گے اور عوام کے اعتماد کو بحال کریں گے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0تبصرے

کوئی غلط کمنٹ سے گریز کریں

ایک تبصرہ شائع کریں (0)